Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر11

جس وقت وہ گھر میں داخل ہوا شام کے چھ بج رہے تھے۔۔۔۔چہرے پر تھکے تھکے سے تاثرات تھے۔۔۔۔ اس نے بیل بجائی اور ایک طرف کھڑا ہو کے انتظار کرنے لگا۔۔۔ پانچ منٹ بعد دروازہ کھل گیا اور اس کی شریکِ حیات دروازے میں کھڑی نظر آئی۔۔۔۔ اسلامُ علیکم۔۔۔۔ اسے اندر آنے کے لیے راستہ دیتے اس نے سلام کیا۔ وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔۔اس کا ماتھا چومتے اس نے جواب دیا مگر جواب میں مقابل کی آواز میں تھکاوٹ نمایاں تھی جسے محسوس کر کے وہ بھی پریشان ہو گئی کیا بات ہے اتنے پریشان کیوں ہیں؟؟؟ وہ فکر مندی سے پوچھ رہی تھی۔۔ کُچھ نہیں سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ وہ اسے تسلی دیتا بولا ۔۔۔ لگ تو نہیں رہا ہوا کیا ہے بتائیں تو مجھے۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی نصف بہتر تھی اس کے ایک ایک انداز کو سمجھتی تھی۔۔۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں میں اب کُچھ کرنے کو دل نہیں کرتا دل کرتا ہے کہیں چھپ جاوں کسی کو نظر نہ آوں۔۔۔۔۔ وہ بے بسی سے گویا ہوا ۔ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ ۔۔ اتنے مایوس مت ہوں خدا مایوس لوگوں کی مدد نہیں کرتا ۔۔۔۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی۔۔۔ تو اور کیا کروں کتنے مہینے گزر گئے اس کا کُچھ پتہ نہیں چلا ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لی۔۔۔۔اوپر سے جاب کے الگ مسائل مجھ سے کُچھ بھی ہینڈل نہیں ہو رہا ایسا لگ رہا ہے سب کُچھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔۔۔۔وہ اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔۔۔۔ امید مت چھوڑیں وہ مل جائے گی ۔۔۔۔ کہاں جائے گی؟؟ اسے واپس یہیں آنا پڑے گا اور پھر دیکھنا میں اس سے بہت ناراض ہوں گی ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا ۔۔۔۔۔ وہ اسے یاد کرتے ہوئے بولی۔ مگر جو سب نے اس کے ساتھ کیا ویسا بھی تو کوئی نہیں کرتا نہ۔۔۔۔۔۔وہ دکھ سے بولا۔ غلطی تو سب کی ہے کس کس سے منہ موڑیں گے۔۔۔۔۔وہ بے بس ہوئی۔۔ جس جس نے بھی اسے تکلیف دی ہے سب سے ۔۔۔۔۔ کسی کو معاف نہیں کروں گا ۔۔۔۔وہ کہتا ہوا اس کا ہاتھ اپنے دل پہ رکھتا اس کی گود میں منہ چھپا گیا۔۔۔ وہ کُچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی پھر اس کا کندھا ہلایا ۔۔ آپ فریش ہو کے آئیں میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔۔ وہ اسے اُٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔ دل نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔۔وہ کسلمندی سے بولا ۔۔ دل نہیں کر رہا تو بھی کھانا پڑے گا اگر آپ نہیں کھائیں گے تو میں بھی نہیں کھاوں گی اور آپ کو پتہ ہے آپ کے بغیر میں کھانا نہیں کھاتی۔۔۔۔ وہ منہ بسورتے بولی تو وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہنس پڑا ۔۔۔۔ ہاں جانتا ہوں میرے بغیر کُچھ نہیں کھاتی۔۔۔مگر تمہیں صرف اپنے لیے نہیں میری جان کے لیے بھی کھانا ہے تم ٹھیک رہو گی تو ہی میری جان ٹھیک رہے گی۔۔۔وہ محبت پاش نظروں سے اس کے سراپے کی طرف دیکھتا بولا جہاں ایک نئی زندگی سانسیں لے رہی تھی۔۔۔۔ ججج جی مم میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔ وہ آج بھی روز اوّل کی طرح اس کی معنی خیز بات پہ شرما گئی تھی اور وہ اس کے سرخ گال دیکھتا ہنستا ہوا فریش ہونےچلا گیا اسے دیکھ دیکھ کر ہی تو جیتا تھا وہ ورنہ اس کی زندگی تو جیسے "اس" کے جانے سے رک سی گئی تھی۔۔۔۔۔۔


وہ اسے ایسے ہی چھوڑ کے کمرے میں آیا تھا جانتا تھا کہ اس کی حرکت اسے بُری لگی ہو گی بغیر کسی حق کے اس پہ اپنا حق جتا آیا تھا اپنی محبت کی زرا سی شدت اس پہ نچھاور کر آیا تھا مگر وہ بھی کیا کرتا اتنے سالوں بعد اسے اپنے سامنے اپنے گھر میں دیکھ کے وہ بے خود سا ہوگیا تھا اور پھر اسے کُچھ سمجھ ہی نہ آیا وہ کیا کر بیٹھا تھا اور اب اسے اپنے کیے پہ پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اس کی محبت تھی آج سے نہیں تب سے جب اس نے اسے پہلی بار دیکھا تھا جب وہ پہلی بار ساوی کے ساتھ گھر آئی تھی تو ان کے گھر میں ایک رونق سی لگ گئی تھی تب اس کے دل میں افرحہ کے لیے جزبات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے مگر وہ اپنے دل کو جھٹلاتا رہا کہ وہ عمر میں اس سے چھوٹی ہے اور یہ صرف وقتی جزباتیت ہے اور کُچھ نہیں مگر جب جب وہ اس کے سامنے آتی تو اس کا دل نئے سرے سے اس کے لیے دھڑکنا شروع کر دیتا اور اسی سب سے گھبرا کر وہ لندن چلا گیا کہ شاید اس کے جزبات ختم ہو جائیں مگر وہاں جا کر اس کی محبت گہری ہوتی گئی تھی۔۔۔۔۔ اور اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے اس سب سے فرار نہیں چاہئیے بلکہ اسے اس فساد کی جڑ چاہیے وہ بھی ہمیشہ کے لیے اور وہ فساد کی جڑ تھی افرحہ جس نے اس کی زندگی میں ہلچل مچا دی تھی اب وہ اسے اپنی زندگی میں چاہیے تھی وہ اسے اپنے نام کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں کیا سوچ رہی ہو گی وہ اس کے بارے میں شاید کوئی لوفر یا آوارہ سمجھ رہی ہو جو آزاد ملک میں رہ کر اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی سوچتے وہ کپڑے نکال کے فریش ہونے گیا فریش ہونے کے بعد اس کے حواس کُچھ بحال ہوئے ۔۔۔ چلو اب تو جو ہونا تھا ہو گیا کل دیکھا جائے جو ہو گا ۔۔ وہ لاپرواہی سے سوچتا سونے کے لیے لیٹ گیا اور پھر افرحہ کے بارے میں سوچتے سوچتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔


صبح سب ٹائم پہ ہی ڈایئننگ ٹیبل پہ پہنچ گئے تھے صرف شایان کی کمی تھی کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آچکا ہے سوائے افرحہ کے اور وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی بتاتی بھی کیا یہ کہ ان کے صاحبزادے نے آتے ہی اس پہ بغیر حق کے مسلط ہونا شروع کر دیاتھا۔۔۔۔ سب ناشتے میں مصروف تھے جب وہ فریش سا نیچے آیا اور سب کو مصروف دیکھ کر دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا ان کے قریب آتے ہی اونچی آواز میں سلام کیا جس پہ سب چونک گئے ۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔۔۔۔ ساوی چیختے ہوئے بھاگ کر اس کے گلے لگ گئی ۔ آپ کب آئے آنے سے پہلے بتایا بھی نہیں اگر بتا دیتے تو ہم ائیرپورٹ آپ کو لینے آتے ۔۔۔۔۔ ساوی کے شکوے شروع ہو چکے تھے۔۔۔۔ اگر بتا دیتا تو تمہارے چہرے پہ یہ خوشی کیسے دیکھتا۔۔۔۔۔ وہ اس کے سر پہ بوسہ دیتا اسے الگ کر کے ماں باپ کی طرف بڑھا اور باری باری ان کے گلا لگا۔۔۔۔ کہہ تو تم سہی رہے ہو اب دیکھ لو تمہارے سرپرائز سے چڑیا کے چہرے پہ کیسی بہار آئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔درید اس کے گلے لگتا ساوی کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بولا اور وہ اسے گھور کر رہ گئی۔ سب سے مل کر وہ اپنی چئیر گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔ ارے یہ کون ہے ان کا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔۔۔وہ افرحہ کی طرف دیکھتا چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا اور وہ اس کی اداکاری پہ اش اش کر اُٹھی۔۔۔۔ بھائی یہ افرحہ ہے میری دوست آپ کو یاد ہو گا نا جب یہ ہمارے گھر آتی تھی اور ہم دونوں اپنی شرارتوں سے آپ کو کتنا تنگ کرتے تھے۔۔۔۔ وہ پرجوش سی افرحہ کا تعارف کرواتے بولی۔۔۔ اور افرحہ کا دل دہائیاں دے رہا تھا مت کرواو تعارف رات کو بڑی اچھی طرح مل لیا ہے تمہارے بھائی نے مجھ سے۔۔۔ اوہ اچھا اچھا ماشااللّٰہ کافی بڑی ہو گئی ہے۔۔ اور تنگ تو یہ مجھے ابھی بھی بہت کرتی ہے۔۔۔۔ وہ افرحہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھتا آخری بات دل میں بولا ۔۔۔ جی بھائی اب آپ اتنے سال باہر رہ کر آئے ہیں آپ بھی تو اتنے بڑھے ہو گئے ہیں تو اس نے چھوٹے کیسے رہنا تھا ۔۔۔۔۔ ساوی اپنی دھن میں کہہ رہی تھی۔۔۔ ہاں ہاں بلکل ۔۔۔وہ بھی اس کی تائید کر رہا تھا ۔۔۔ اچھا اب یہ باتیں چھوڑو اور ناشتہ کرو رات کو بھی ایسے ہی آ کے سو گئے ہو گے کُچھ نہیں کھایا ہو گا ۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم فکرمندی سے بولیں ۔ نہیں ماما رات کو سونے سے پہلے میں نے سویٹ ڈش کھائی تھی اور پتہ ہے ماما اتنی مزیدار ڈش میں نے کبھی نہیں کھائی پتہ نہیں کیا جادو تھا اس ڈش میں کہ اسے کھاتے ہی مجھے جادو سا چڑھ گیا اور میں آپ سب سے ملے بغیر ہی مدہوش ہو کے سو گیا۔۔۔۔۔ وہ افرحہ کی طرف معنی خیزی سے بولتا ہوا نادیہ بیگم کو جواب دے رہا تھا جبکہ اس کی بات سن کے افرحہ کا نوالہ حلق میں ہی اٹک گیا اور اسے زور کا اچھو لگاوہ اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ وہ کس سویٹ ڈش کی بات کر رہا تھا ۔۔۔۔ کھانس کھانس کر اس کا رنگ سُرخ پڑ گیا ساوی نے اسے پانی پلایا اور ساتھ میں اس کی کمر سہلائی جبکہ اس کی یہ حالت دیکھتا شایان اپنی مسکراہٹ دباتا جوس کا گلاس منہ سے لگا گیا ۔۔۔۔۔۔ آرام سے بیٹا !! شاید شایان کی وجہ سے نروس ہورہی ہے۔۔۔۔ بیٹا وہ بھی تمہارے بھائی جیسا ہے جیسے وہ ساوی کا بھائی ہے ویسے ہی تمہارا بھی اور جیسے ہم سے نہیں ہچکچاتی ویسے شایان سے بھی مت ہچکچاو میرا بیٹا بہت اچھا ہےعورتوں کی عزت کرنے والا ۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم اس کی گھبراہٹ محسوس کرتیں اسے سمجھانے لگیں جبکہ اس بار شایان کے منہ میں جاتا جوس فوارے کی صورت باہر نکلا۔۔۔۔اور اس بار مسکرانے کی باری افرحہ کی تھی جس کی سانس میں اب ترتیب تھی ورنہ حالت تو بہت خراب ہوئی تھی اس کی ۔۔۔۔۔ اور وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ جی ماما رات کو اچھی طرح آپ کے لاڈلے کے عزت کے مظاہرے دیکھ چکی ہوں اور ایسی عزت سے اللّٰہ بچائے۔۔۔ ایک بار پھر رات کا واقعہ یاد کرتی وہ سرخ پڑی . ۔۔۔۔ شایان آرام سے بیٹا ۔۔۔۔۔ وہ اب افرحہ سے توجہ ہٹا کے شایان کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔۔۔۔ جی ماما میں ٹھیک ہوں بلکل ۔۔۔۔۔ وہ ٹشو سے منہ پونچھتا ہوا بولا جبکہ یہ دونوں منظر درید نے بڑی غور سے دیکھے تھے اور اب وہ پورا ارادہ رکھتا تھا اس سے اس کی مزیدار سویٹ ڈش پوچھنے کا۔۔۔۔۔ چلو پھر اب ہم آفس کے لیے نکلتے ہیں شایان تو نہیں جائے گا نا آج۔۔۔۔ مراد صاحب اُٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ نہیں بابا ابھی نہیں کُچھ دن ریسٹ کروں گا اس کے بعد بزنس جوائن کروں گا ۔۔۔۔ وہ ان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ٹھیک ہے چلو درید ہم تو چلیں ۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ درید سے بولے۔۔ ٹھیک ہے پھر آکر تفصیل سے ملتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔ وہ تفصیل لفظ پر زور دیتا ہوا شایان سے بولا جو اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ چکا تھا ۔۔۔ جی جی جناب ضرور ۔۔۔۔ وہ دانت دکھاتا ہوا بولا ۔ اور درید ایک گہری نظر ساوی پہ ڈال کےمسکراتا ہوا کے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔


ساوی اس کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔۔۔ وہ افرحہ کو لے اس کے کنرے میں گھس گئی تھی۔۔ افرحہ پہلی بار اس کمرے میں آئی تھی اور اسے پہلی نظر میں ہی یہ کمرہ اچھا لگا تھا بلکل سادہ سا آف وائٹ اور میرون کلر کے امتزاج سے سجا۔۔۔میرون کلر کے پردے میرون صوفے میرون ہی بیڈ شیٹ جب کہ کارپٹ کا کلر آف وائٹ تھا۔۔۔۔ بالکونی بھی تھی جو کہ لان کی طرف تھی اور یہاں سے لان کا منظر بہت دلکش لگتا تھا ۔۔۔۔وہ جب ساوی کے ساتھ روم میں داخل ہوئی تو شایان اپنا بیگ کھولے بِیٹھا تھا جو صبح ہی اس نے ڈرائیور سے منگوایا تھا ۔۔۔۔ بھائی آپ میرے لیے گفٹ لائے۔۔۔۔ وہ اندر آتے ہی نولی۔۔۔ جی میری جان ڈھیر سارے گفٹ لایا ہوں ادھر آو کھول کے دیکھو۔۔۔۔ وہ اسے اپنے پاس بلاتا بولا۔۔ وہ پرجوش سی آگے بڑھی اور سارے گفٹ کھول کھول کے دیکھنے لگی جبکہ افرحہ ایک سائیڈ پہ ہی کھڑی تھی۔۔ ارے افی وہاں کیوں کھڑی ہو یہاں آو نا ۔۔۔۔ وہ افرحہ سے مخاطب ہوئی۔۔ نہیں تم اپنے گفٹ دیکھو میں یہیں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ اس نے سادگی سے جواب دیا ۔۔ کیوں تم اپنے گفٹ نہیں دیکھو گی؟؟ اب کی بار شایان نے پوچھا ۔ میرے گفٹ؟؟؟ وہ حیران ہوئی۔ جی ہاں آپ کے گفٹ جتنے گفٹ ساوی کے ہیں اتنے تمہارے بھی لایا ہوں میں۔۔۔ مجھے یاد تھا کہ میری گڑیا کی ایک گڑیا جیسی دوست بھی ہے جو اسے (اور مجھے) اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے ۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھتا مسکرا کر بولا۔ واو بھائی آپ کو یاد تھا اب تو آو نا افی ۔۔۔۔۔۔ وہ بھائی سے کہتی ایک بار پھر افرحہ کو بلانے لگی۔۔۔۔اور چاروناچار افرحہ اس کے پاس جا کے بیڈ پر بیٹھ گئی اس طرح کہ ایک تکون سی بن گئی افرحہ بلکل شایان کے سامنے تھی۔۔ ساوی گفٹ دیکھنے میں مصروف تھی اور شایان افرحہ کو دیکھنے میں جبکہ افرحہ شایان سے نظریں چراتی ادھر ادھر دیکھ رہی تھیاور شایان کو اس کا شرمانا بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ افی یہ دیکھو نا ۔۔۔۔ساوی نے اس کی گفٹ کی طرف توجہ دلائی تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔ سارے گفٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھے کُچھ ریڈی میڈ شرٹس تھی کُچھ میک اپ کٹس ۔۔۔ برینڈڈ پرفیومز۔ساوی اور افرحہ دونوں کے لیے سیم واچز بھی تھیں ۔۔۔ افرحہ دل ہی دل میں شایان کی پسند کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکی۔۔۔۔۔ تھینکیو سو مچ بھائی مجھے یہ سب بہت ہسند آیا ہے نا افی تمہیں کیسا لگا۔۔۔۔وہ شایان کو بولتی افرحہ سے پوچھنے لگی۔ ہہ ہاں سب بہت اچھا ہے مجھے بھی بہت پسند آیا آپ کی پسند بہت اچھی ہے۔۔ وہ دل سے تعریف کرتی ہوئی بولی۔۔۔ اور اس کی بات سن کے شایان مسکرا دیا۔ ہاں میری پسند واقعی بہتتتت اچھی ہے ۔۔۔ وہ اس کی طرف گہری نظروں سے دیکھتا بہت پہ زور دیتا معنی خیزی سے بولا۔۔ اس کی بات کا مفہوم سمجھ کے افرحہ نے گھبرا کر ساوی کی طرف دیکھا آیا اسے کُچھ سمجھ تو نہیں آیا مگر وہ اپنے گفٹس میں ہی بزی تھی افرحہ نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔ چلو افی روم میں چل کے سب سیٹ کرتے ہیں ۔۔۔ ساوی سارا سامان سمیٹتی اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔ اور وہ تو اسی انتظار میں تھی جھٹ سے کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ ساوی نے سارا سامان چھوٹے بیگ میں ڈالا اور باہر نکل گئی افرحہ بھی اسے کے پیچھے جانے لگی۔۔دروازے تک پہنچتے ہی پیچھے سے شایان نے اسکی بازو کھینچ کر اسے اپنی گرفت میں لیا اور دونوں بازو اس کی کمر میں ڈال لیے کہ وہ چاہ کر بھی چھڑا نا پائی۔۔۔ یہ تو بتا دیا کہ گفٹس بہت پسند آئے یہ بھی بتا دو کہ گفٹس دینے والا کیسا لگا وہ بھی پسند آیا یا نہیں ۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے اس کی مزاحمت نظرانداز کرتے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔ پپ پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ وہ منمنائی ۔۔ پہلے میرے سوال کا جواب دو۔۔۔وہ اسرار کرتے ہوئے بولا ۔۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہے میرا اور آپ کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں بے سہارا ہوں آپ کے گھر والوں کے رحم و کرم پہ ہوں ۔۔۔میں نہیں چاہتی میری وجہ سے ان کو کوئی تکلیف ہو آپ کی ماما بابا کے بہت احسان ہیں مجھ پر ۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھے برے کریکٹر کی لڑکی سمجھیں ۔۔۔۔ آپ پلیز میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ ماما آپ کی شادی عانیہ سے کرانا چاہتی ہیں تو آپ ان کی رضا میں راضی ہو جائیں پلیززز مجھے چھوڑ دیں میرے لیے زندگی کو تلخ مت بنائیں کہ جینا مشکل ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کی گرفت میں روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔ اور وہ جو اس کے بے سہارا ہونے والی بات پہ الجھا تھاعانیہ والی بات پہ چونکا ۔۔۔۔۔ کس نے کہا تم سے یہ ؟؟؟ اب وہ ااس سے پوچھ رہا تھا جس نے بھی کہا ہو یہی سچ ہے۔۔۔۔۔وہ اس کی گرفت ڈھیلی ہوتی دیکھ اسے دھکا دیتی اپنے روم میں بھاگ گئی۔۔۔۔ اور پیچھے وہ الجھا سا کھڑا رہ گیا اسے افرحہ کو یہاں رہتے دیکھ حیرت تو تھی مگر وہ کسی سے پوچھ نہ سکا اور گھر والوں نے بھی کُچھ نہیں بتایا تھا وہ درید سے ساری بات پوچھنے کا فیصلہ کرتا ریلیکس ہو گیا اور ساتھ ہی اب اسے یہ عانیہ والا مسلہ بھی سلجھانا تھا .۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments